Sunday, March 12, 2023

Quetta Sanehay Barkhan Aor Es Ke Pehy Hone Waly Sazish Pas Parda Keya Kuch Howa & Hone Ka Shaj Ho Khetran Sardan K Zulam Ki Chupane & Samne Lane Kelly Konse Harbe Shak O Shubat kanam Le Rahe Hin

 سانحہ بارکھان اور سردار عبدرالرحمن کی ضمانت پر رہائی 👇

سانحہ بارکھان کے بارے میں اس وقت تقریباً پورے پاکستان کو پتا ہے سب لوگ اس وقت صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کو ہی اسکا قصوروار ٹھہرا رہے ہیں مگر یہاں کچھ چیزوں کو سمجھنے کے لئے ٹھنڈے دل و دماغ کی ضرورت ہے آیا واقعی اس میں صرف سردار عبد الرحمان کا ہی قصور ہے یا اور لوگ بھی ملوث ہیں جو اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے پس پردہ ہیں۔ خان محمد مری کچھ مہینے پہلے آتا ہے منظر عام پر جب بلدیاتی الیکشن شروع ہوئے ۔ اگر اسکی بیوی بچے سالوں سے لاپتہ تھے تو اتنے سال وہ کہاں رہا؟ کیا اس نے کوئی درخواست جمع کروائی اپنے خاندان کے لا پتہ ہونے کی ؟ خان محمد کے میڈیا پر آنے کے کچھ دن باد ہی اک عورت کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے قرآن شریف ہاتھ میں اٹھائے ہوئے جسکا نام گراں ناز بتایا جاتا ہے جو خان محمد کی بیوی ہے، پھر کچھ دن بعد 3 لاشوں کی اطلاع دی جاتی ہے سردار عبد الرحمان کھیتران کے گاؤں کے پاس ایک کنواں سے جس میں دو نوجوان اور ایک لڑکی کی لاش ہے ، اس لڑکی کی لاش نا قابل شناخت ہے چہرہ مسخ ہے پہچان کے قابل نہیں ہے اب تک اسکو ہسپتال نہیں لایا گئے خان محمد پھر سوشل میڈیا پر نمودار ہو کے کہتا ہے یہ میری بیوی اور بیٹوں کی لاشیں ہیں لاشوں کو دیکھے بنا انہیں پہچانے بنا، پھر ایک طوفان بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوتا ہے پورے پاکستان میں سردار عبد الرحمان کے خلاف بارکھان میں ایک مخصوص ٹولہ کو موقع مل جاتا ہے جنکا شیوا رہا ہے لاشوں پر سیاست کرنا انہوں نے بارکھان میں احتجاج اور رونا پیٹنا شروع کردیا کے یہ لاشیں خان محمد مری کے خاندان کی ہیں اور سردار عبد الرحمان نے یہ قتل کئے، خیر آگے چلتے ہیں پھر ادھر سے مری اتحاد نے کوئٹہ میں دھرنا دے دیا، سردار عبد الرحمان کو رضاکارانہ طور پر خود کو پولیس کے حوالے کرنا پڑا اسکے بعد کچھ دن کے بعد خان محمد مری کے خاندان کی انٹری ہوتی ہے اسکی بیوی گراں ناز اپنے بچوں کے ساتھ زندہ سلامت کاٹن کے کپڑوں میں ملبوس بچے رنگت سے کسی اعلیٰ خاندان کے لگ رہے تھے جو شاید کسی ایر کنڈیشنڈ نجی جیل میں رہے تھے  سوشل میڈیا پر خود پر ہونے والے مظالم کی داستان سنانے لگتے ہیں اسکے بعد ایک نیا ڈرامہ شروع ہوتا ہے کبھی خان محمد کہتا ہے لڑکی کی لاش میری بیٹی کی ہے کبھی اسکی بیوی کہتی ہے کے ان میں ایک لڑکے کی لاش میرے بیٹے کی نہیں خیر وہ دو لڑکوں کی لاشیں اٹھا کے روانہ ہوجاتے ہیں مری اتحاد کا دھرنا ختم ہوجاتا ہے وہاں رہ جاتی ہے ایک نوجوان لڑکی کی لاش جسے پھر کچھ لوگوں کی طرف سے ایک نئے کردار امیرو بی بی کا نام دے دیا جاتا ہے جو کھیتران قوم سے ہے اور اس لاش کو ایک نیا نام مل جاتا ہے امیرو بی بی جسے ایدھی والے دفن کر دیتے ہیں کوئٹہ میں کیونکہ اسکا کوئی وارث سامنے نہیں آیا اور خود کو کھیتران قوم کی ہمدرد کہنے والی ان لوگوں نے بھی آنکھیں موند لیں کے اب اس لاوارث لاش کو کون اٹھائے پھرے، خیر  خان محمد اور اسکے خاندان کے بیانات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں سوال گندم جواب چنا والے معاملات شروع ہوجاتے ہیں پورے خاندان کے بیانات آپس میں مختلف، خان محمد کی بیوی یہ بیان دیتی ہے کے انہیں بند کمروں میں الگ الگ رکھا جاتا تھا اگر آپکو نجی جیل میں رکھا گیا تو آپکی اور آپکے بچوں کی وائرل ہونے والی تصاویر کہاں سے آئی کھلی فضا میں کسی گھر کے صحن میں، پھر ایک اور شوشہ چھوڑا جاتا ہے کے قتل ہونے والی لڑکی کو گراں ناز کی وڈیو لیک کرنے کے جرم میں قتل کیا گیا، نجی جیل میں موبائل فون کہاں سے آیا؟ اگر وہ گراں ناز کی ویڈیو بنا سکتی تھی اسے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر سکتی تھی اس نے اپنی رہائی کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ سب سے پہلے تو اسے خود کو آزاد کروانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اسکے خاندان والے چلو سردار کے ڈر سے کیس نا کرتے سردار پر مگر اسکی لاش واپس لا کر اسکی تدفین کر دیتے اور معاملہ رفہ دفہ کر دیتے اسکا مطلب وہ لڑکی امیرو بی بی نہیں ہے۔ بقول سردار عبد الرحمان کھیتران کے مخالفین کے وہ ایک شاطر سیاست دان ہیں ایک منجھے ہوئے کھلاڑی جب انہیں پتا تھا کے انکے خلاف سوشل میڈیا پر خان محمد کے خاندان کے افوا کی خبر سر گرم ہے تو کیا وہ ایسی بچگانہ حرکت کرتے کے خان محمد کے خاندان کی 3 لاشیں اپنے گھر کے پاس پھینکواتے؟ ایک جاہل سے جاہل انسان بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے گا کیونکہ اسے پتا ہوگا کل یہ لاشیں میرے گلے میں فٹ ہونگی۔ وہ لاشیں وہاں چھپانے کے لیے نہیں برآمد کرنے کے لئے ڈالی گئیں۔ ، ان میں ایک لڑکی کی لاش پرانی تھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق وہ باقی دو لاشوں سے پرانی لاش تھی جسکا چہرہ جان بوجھ کے مسخ کیا گیا تاکہ پہچان میں نا آئے ۔ جس لڑکی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کہ گئی اسکے گلابی کپڑوں کی سامنے بلوچی کپڑوں کی جیب ہے جو لاش کے کپڑے ہیں وہ گلابی تو ہیں مگر انکے سامنے جیب نہیں ہے قاتل نے چال تو چلی مگر یہ بھی غلطی کر گیا کپڑوں کا رنگ تو ایک ہے ڈیزائن مختلف ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے خان محمد مری اس سے پہلے کہاں تھا اتنے سال اسے اپنے خاندان کی فکر نہیں ہوئی ؟خان محمد کو شاید اس بات کی توقع نہیں تھی یہ مسئلہ اس حد تک چلا جائے گا اسے استعمال کیا گیا اور وہ اپنے ہی جال میں خود پھنس گیا، مقصد سردار عبد الرحمان کو الیکشن تک جیل بھیجنا تھا تاکے اپنی مرضی کا منتخب نمائندہ سامنے لایا جائے بارکھان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے اگر شروع سے آخر تک اس ایشو کو دماغ کھول کر سوچیں تو خان محمد کے سوشل میڈیا پر آنے سے لے کر اب تک کے واقعات کو دیکھا جائے تو یہ صرف ایک سیاسی چال ہی لگتی ہے جسکے پس پردہ بہت سے لوگ ملوث ہیں ہو سکتا ہے وہ لڑکی کی لاش امیرو بی بی کی نا ہو اسے کہیں اور سے لایا گیا ہو۔ جہاں تک بلوچستان کی بات کریں یہاں ہر سردار ،نواب وڈیرے کے گھر میں کوئی نا کوئی عورت جو گھر سے بھاگی ہوئی ہو یا کاروکاری کے مسئلہ میں ہو اس نے پناہ لے رکھی ہوگی، انکے خاندان والے خود ایسی لڑکیوں کو وہاں چھوڑ جاتے ہیں انکا فیصلہ ہونے تک کیونکہ ان علاقوں میں دارلامان کی سہولیات نہیں ہیں وہ لڑکی وہاں اپنی مرضی کی زندگی گزارتی ہے کیا  یہ تینوں قتل ٹوٹل سیاسی ڈرامہ ہیں جہاں سردار کو ملزم ٹھہرا کر باقی پس پردہ کردار سیاسی فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں ۔


Wednesday, January 22, 2020

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کا دورہ بلوچستان وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان سے ملاقات باہمی مشاورت پر گفت و شنید تربت اور گوادر کا وزٹ پنجاب کی طرف سے غریب بلوچ قوم کیلئے بہت سے ترقیاتی پروجیکٹ کا اعلان

*بلوچستان میرا دوسرا گھر ہے، تربت کی ترقی دیکھ کر خوشی ہوئی؛ بلوچ طلبا وطالبات کیلئے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں خصوصی کوٹہ مختص کیا ہے‘  عثمان بزدار کا بلوچی میں خطاب*

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ایک روزہ دورے پر بلوچستان گئے، وزیراعلیٰ نے تربت اورگوادر کا دورہ کیا - وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار تربت پہنچے تووزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ان کا استقبال کیا-اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی،ایم پی اے لالہ رشید دشتی، عبدالروف رند اور دیگر بھی موجود تھے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے سرکٹ ہائوس تربت میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے اعزاز میں تقریب کاانعقاد کیا گیا-وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بلوچستان کی روایتی پگڑی پہنائی- وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے بلوچی زبان میں خطاب کیا -وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہاکہ تربت آکر انتہائی خوشی محسوس کررہا ہوں۔

بلوچستان میرا دوسرا گھر ہے۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان کے ساتھ ملکر بلوچستان کی ترقی کے لئے بھرپور تعاون جاری رکھیں گی-وزیراعلیٰ بلوچستان کی قیادت میں صوبائی حکومت بلوچستان کی ترقی کے لئے قابل تحسین اقدامات کررہی ہے اور مجھے تربت کی ترقی دیکھ کر خوشی ہوئی ہی-بلوچستان کے طلبا وطالبات کیلئے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں خصوصی کوٹہ مختص کیاہی-بلوچستان کے طلبا وطالبات کے لئے خصوصی کوٹے میں اضافے کاجائزہ لیں گی- انہوںنے کہاکہ لاہور میں چاروں صوبوں کی ثقافتی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لئے بہت جلد پروگرام کا انعقاد کیاجائے گا جس سے بین الصوبائی روابط میں اضافہ اورثقافتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا-انہوںنے کہاکہ ترقی کے سفر میں بلوچستان کو ساتھ لیکر چلیںگی-پنجاب حکومت بلوچستان میں دل کے امراض کے علاج معالجہ کے لئے ہسپتال بنائے گی جبکہ خاران میں پنجاب حکومت کے تعاون سے ٹیکنیکل کالج بھی تعمیر کیاجا رہاہی-ہم بلوچستان کے بہن بھائیوں کی مدد کے لئے ہر ممکن تعاون جاری رکھیں گی- پاکستان کی ترقی کے سفر کوتیزی سے آگے بڑھائیں گے اور ملکر عوام کی خدمت کا سفر جاری رکھیں گی-ہم بلوچستان میں بسنے والے اپنے بہن بھائیوںکو پنجاب میں خوش آمدید کہتے ہیں- بلوچ بہن بھائیوں کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں-ہم اپنے بلوچ بھائیوں کو پنجاب میں کاروبار کی دعوت دیتے ہیں- انہوںنے کہاکہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور بڑے بھائی کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ چھوٹے صوبوں کو آگے بڑھنے میں معاونت فراہم کریں-انہوںنے کہاکہ پنجاب حکومت صوبے کی ترقی کے لئے اربو ںروپے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کررہی ہے او رصوبے کے پسماندہ علاقوں کی ترقی پر فوکس کیا ہواہی-رواں مالی سال کے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے لئے 35فیصد فنڈز مختص کئے گئے ہیں تاکہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر پہنچ سکیں-وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا دورہ تربت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے درمیان برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو 44فیصد سے زائد رقبے پر محیط ہے، صوبے کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، صوبائی حکومت دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے کام کررہی ہے، بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی طور پر بااختیار بنانے کے لئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے ذریعہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے جائیں گے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے اس دورہ سے صوبائی ہم آہنگی اور صوبوں کے مابین روابط کو مزید فروغ ملے گا اور دونوں صوبوں کے عوام کے درمیان برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہوگا، صوبائی حکومت کے ترقیاتی اقدامات اور پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں صحت، تعلیم اوردیگر محکموں کو بھی مرحلہ وار ڈویژنل اور ضلعی سطح پر فعال کیا جائے گا جس سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضلع کیچ کے عوام باشعور اور پڑھے لکھے ہیں، بلوچستان کی تعمیروترقی میں مکران کے لوگوں کو بنیادی کردار ہی-صوبائی وزیر خزانہ بلوچستان میر ظہور احمد بلیدی نے کہاکہ وزیر اعلی پنجاب کا دورہ تربت ہمارے لیے باعث عزت اور اعزاز کا مقام ہے۔ تربت میں ترقیاتی منصوبوں کا اجراء وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان کی قائدانہ وژن کا حصہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مکران ڈویژن کے ترقیاتی منصوبوں، حالیہ بارشوں و برفباری سے ہونے والے نقصانات اور امداد و بحالی کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا گیا۔تقریب میں صوبائی وزیر میر ظہور احمد بلیدی، رکن صوبائی اسمبلی عبدالرشید بلوچ او رعلاقے کے قبائلی و سیاسی عمائدین بھی موجود تھی-وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار او روزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بارشوں سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا- دونوں وزراء اعلیٰ نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کا معائنہ کیا-سردار عثمان بزدار او رجام کمال خان نے میرانی ڈیم کا بھی فضائی جائزہ لیا- وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے برفباری اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی-عثمان بزدار نے کہاکہ پنجاب حکومت بلوچستان کے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے حاضر ہے اورہم متاثرہ علاقوں کی بحالی کے حوالے سے بھی ہر ممکن معاونت کے لئے تیار ہیں-مشکل کی گھڑی میں بہن بھائیوں کی مدد ہمارا فرض ہی- بعدازاںوزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان گوادر پہنچے -وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے گوادر پورٹ کا دورہ کیا- وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کوگوادرسمارٹ سٹی اور گوادرماسٹر پلان پر بریفنگ دی گئی-ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات بلوچستان نے صوبہ بھر میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق بھی بریفنگ دی۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نئے پاکستان میں گوادر ترقی کی نئی منازل طے کرے گا-گوادر میں جاری ترقیاتی کام دیکھ کر مسرت ہوئی ہی-وہ دن دور نہیںجب گوادر ایک بین الاقوامی شہر بنے گا-گوادر پورٹ کی فعالیت سے تجارت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگی-وزیراعلیٰ کوبریفنگ کے دوران بتا یا گیا کہ گوادرکے ماسٹر پلان پر عمل درآمدشروع کر دیا گیاہے اورسی پیک میں شامل تمام منصوبوں کو تیزی سے تکمیل کیا جا رہا ہے -گوادرکا انٹرنیشنل ائرپورٹ 2022 میں مکمل ہو جائے گا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور ایل پی جی کارگو ہینڈلنگ سے گوادر پورٹ پر جہازوں کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری ہے۔

Sunday, May 5, 2019

پاکستان میں عرب کے آئے شہزادے پاپندی کے باوجود تلور کی شکار کرتے ہیں کون ہے وہ طاقت جس کے ساتھ ملکر پاکستان کے قانون کو لالچ یاڈر سے دھجیاں اڑائ جاتی ہیں


یہ تلور کا شکار اتنا خاص کیوں ہے؟اور یہ شکار صرف عرب شہزادے ہی کیوں کرتےہیں گورے بھی شکار کے بہت شوقین ہوتے ہیں لیکن کبھی سنا نہیں کہ شکار کے لئے وہ یہاں آۓ ہوں ویسے بھی ایک معمولی پرندے کیلئے عربوں کے اربوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور یہ شکار پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہی کیوں کیا جاتا ہے تلور تو ایک آزاد پرندہ ہے سال میں دو دفعہ اپنا سفر ٹھنڈے ممالک سے گرم ممالک اور پھر گرم سے ٹھنڈے ممالک کی طرف کرتے ہیں اس سفر کے دوران دنیا کے بیسوں ممالک سے گزرتے ہیں جن میں عرب ممالک بھی شامل ہیں پاکستان میں مقامی لوگ بھی اس کا شکار کرتے ہیں مجھے خود ایک دفعہ بہاولپور کے ایک دوست کے ساتھ شکار کا اتفاق ہوا تھا اور تلور کھانے موقعہ بھی ملا ذائقہ میں گوجرانوالہ سے ملنے والے چڑوں سے زیادہ کمال نہیں تھا اور مجھے ذاتی طور پر اس میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی کہ اس کے شکار کے لئے اتنی محنت یا سرمایا خرچ کیا جائے پھر بھی عرب شہزادے اس شکار کے اتنے شوقین کیوں ہوتے ہیں اور یہاں آکر ہی کیوں حالانکہ ان کو شکار زندہ ی مردہ ان کے ممالک میں بصد خوشی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اندر کی کہانی اس شکار سے بھی زیادہ ہولناک اور بربریت سے بھری ہے پچھلے دنوں میری ملاقات بہاولپور میں عرب شہزادوں کی سکیورٹی پر معمور ایک سکیورٹی آفسر سےہوئی جو ایک ریٹائر میجر تھے اور اسلام آباد میں کوئی نئی جاب تلاش کر رہے تھے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں وہ دو لاکھ کی تنخواہ لیتے تھے میں سوال کیا جاب کیوں چھوڑی ؟ میجر صاحب نے جواب دیا فوجی ہوں ضمیر گوارہ نہیں کیا میرے لئے جواب حیرت انگیز تھا لیکن جو کچھ ان سے سنا پیش خدمت ہے ۔ سکیورٹی آفیسر کی ذمہ داری ہوتی ہے مہمان کو ائیرپورٹ سے لے اور ہر لمحہ اس کے ساتھ رہے اور اسے واپس ائیرپورٹ پر بحفاظت پہنچائے اور مہمان ہر وقت اس کی نظر میں رہے لہذا اس سے زیادہ کسی مہمان کی ذاتی مصروفیات کو کوئی نہیں جانتا ہم سب نے کبھی غور کیا ہے کہ عرب شہزادے جب بھی شکار پر آتے ہیں اکیلے کیوں آتے ہیں ان کے ساتھ ان کی فیملی یا بیویاں کیوں نہیں آتی کیا ان کو تلور اور ہرن کا گوشت پسند نہیں کہانی کچھ یوں ہے شہزادے جب شکار گاہ میں آتے ہیں تو محل سے دور خیمہ بستی قائم کی جاتی ہے جہاں یہ دوپہر کے بعد شکار شروع کرتے ہیں شکار میں شکرے گھوڑے کتے اور باز استعمال ہوتے ہیں شکار مغرب سے پہلے ختم ہو جاتا ہے پھر مغرب کی نماز کی با جماعت ادائیگی ہوتی ہے اور شکار پکایا جاتا ہے باربی کیو 'ہنڈی کڑھای 'سٹیم روسٹ کے ساتھ ساتھ ہزاروں طرح کے میٹھے اور ہریسہ اور پھر عشاء کی با جماعت نماز سے پہلے اسے کھا لیا جاتا ہے پھر شہزادے اپنے اپنے خیموں کا رخ کرتے ہیں جہاں حکومت پاکستان 'مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی حوس پوری کرنے کیلئے کم عمر مقامی لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہےاس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لڑکیاں مقامی یعنی پاکستانی ہوں کسی کی عمر بارہ یا چودہ سال سے زیادہ نہ ہوں شہزادوں کو پیش کرنے سے پہلے ان پاکستانی بیٹیوں کو مشک و عنبرسے نہلادھلا کر خاص ٹریننگ دی جاتی ہے کہ شہزادوں کو کسی طرح کی مزاحمت یا پریشانی کا سامنا نہ ہو اندر کے حالات تو کوئی نہیں جانتا کہ ان بچیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن وہی ہوتا ہوگا جو ایک باز ایک ننھی سی چڑیا کے ساتھ کرتاہے میجر صاحب نے کہا میں خیموں کے باہر وہ آوازیں سنی تھیں جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں اس تجربے کو بتاتے ہوئے ایک فوجی کی آنکھوں میں آنسو تھے خود سوچ لیں جہاں ایک فوجی کی ہمت جواب دے گئی وہاں ظلم کس نہج پر ہوگا بربریت کیسے محو رقصاں ہو گئی شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹر بھی اس بات کے گواہ ہیں جب ایمرجنسی میں یہ کم سن پاکستانی بیٹیاں گہرے اندرونی زخموں کی وجہ سے کئی کئی دن ہسپتال میں گزارتی ہیں اور کئ تو اپنی جان سے جاتی ہیں ۔ میرا پوری قوم سے سوال ہے کیا ہم دلال ہیں یا یہ ملک ہیرا منڈی ہے چند سکوں اور ویزوں کی مرعات کے بدلے ہم اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں کس کام کا ہمارا ایٹم بم کس کام کی آزادی جو ہزاروں جانیں دے کر ملی تھی کہاں جاتی ہے غیرت قومی جب یہ شہزادے آپس میں بیٹھ کر پاکستانی قوم کی عزت اور توقیر کی دھجیاں اڑاتے ہوں گئے ہم جن ممالک کے شہزادوں کے سامنے کمر تک جھک کا کورنش بجا لاتے ہیں ان کا پورا ملک پاکستان کے ایک شہر سے بھی چھوٹا ہوگا اور کمزور اس قدر کے اگر ایک بریگیڈ فوج بھیج دی جائے تو جنگ لڑے بغیر ہیتھار ڈال دیں گئے لیکن میرے خیال میں قصور ان شہزادوں کا نہیں قصور ہمارا ہے کیونکہ جب آپ قومی عزت و غیرت کو تھال میں رکھ کر سر بازار کھڑے ہوں گئے تو خریدار تو کوئی بھی ہو سکتا ہے ویسے اتنی بےعزتی اور بے توقیری کے بعد ہمیں یہ اٹیم بم اپنے دالحکومت میں رکھ کر چلا لینا چائے شاید یہاں کوئی بھی قوم دوبارہ آباد ہو وہ ہماری طرح اس زمین پر بوجھ نہ ہو

Sunday, April 7, 2019

کلاچی بلوچستان سے بلوچ مریض کو روڈ نہ ہونے کے باعث لکڑیوں پر اٹھا کر سڑک کی طرف لے جائے جارہا ہے پاکستان میں جب تک سردار وڈیرے چوہدری خان کے اجاراداری رہی تب تک پاکستان کی ترقی ممکن نہیں نہ پاکستان کو دشمن کی ضروت ہے

یہ ہے گاج کولاچی کا علاقہ اور یہ جو تصویر میں لوگ کوئی چیز اٹھائے دکھائی دے رہے ہیں یہ چیز ویز کچھ نہیں یہ ایک مریض ہے جسے لکڑیوں پر اٹھائے کسی مطب کی تلاش میں سرگرداں ہیں یہ لوگ ہاں صحیح پہچانا یہ ہے جھالاوان ایمبولینس سروس۔
اس پورے علاقے میں جو کم از کم ایک سو اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے اس پورے علاقے میں نہ ایک کلومیٹر روڈ ہے نہ بجلی اور نہ ہی اسپتال اور یہاں سے ایم پی اے بھی بی این پی کا ہے اور ایم این اے بھی بی این پی کا ہے ان سات ماہ میں اس علاقے کی درج بالا بنیادوں سہولتوں کیلیئے ایک بھی آواز نہیں اٹھی۔ان موٹرویز سے گزرتے ہوئے جب یہ لوگ آیک آدمی کے پاس پہنچینگے جسے لوگ تو ڈاکثر کہتے ہیں مگر اسے بھیڑیا کہنا ٹھیک رہیگا۔
ان لوگوں کی دادرسی نہ پہلی حکومتوں کے ادوار میں ہوئی نہ اب ہوگی۔
ہم بلوچستان کے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ تو مرکز کے چہیتے ہیں اپ انے دؤر میں ان علاقوں کو روڈ اسپتال اور بجلی کی سہولتوں سے آراستہ کرکے انکی دعائیں لیں۔
عبدالفتاح بروہی

Thursday, March 28, 2019

بارکھان میں کھیتران قبائل کا مری قبائل کے چار افراد گن پوائٹ پر اغوا چوبیس گھنٹے گزرنے مغوی بازیاب نہ ہو سکے

OC
بارکھان  بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کھیتران قبیلے کی ذیلی شاخ وگہ نے مری قبیلے کے چار افراد کو گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا اغوا ہونے والوں میں ایک مرد دو خواتین اور ایک چار سالہ بچہ شامل ہے۔
Vo
بارکھان  27 مارچ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تقریبا ڈھائی بجے کے قریب کھیتران قبیلے سے تعلق رکھنے والے سات سے آٹھ مسلح افراد نے موضع ڈبلہ علاقہ سوئمن کے  قریب چار افراد کو گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا جن  ایک مرد دو خواتین ایک چار سالہ بچہ شامل ہے پولیس کے مطابق اغوا کی وجہ ایک ماہ قبل کھیتران قبیلے کی ایک لڑکی نے مری قبیلے کے ایک شخص سے پسند کی شادی کی تھی جس کی پاداش میں گزشتہ رات کھیتران قبیلے کے لوگوں نے چار افراد کو اٹھا لیا ہے پولیس کے مطابق ایک شخص امیر حمزہ کو بازیاب کرالیا گیا ہے اور اب بھی دیگر مغویوں کی بازیابی کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے گھر پر اب سے کچھ دیر قبل چھاپہ مارا گیا ہے لیکن ملزمان گھر پر موجود نہیں ہیں پولیس ملزمان کو موبائل فون پر  ٹریس کرنے کی کوشش کررہی ہے ایس ایچ او رکنی پولیس اسٹیشن رحیم بخش بزدار