یہ تلور کا شکار اتنا خاص کیوں ہے؟اور یہ شکار صرف عرب شہزادے ہی کیوں کرتےہیں گورے بھی شکار کے بہت شوقین ہوتے ہیں لیکن کبھی سنا نہیں کہ شکار کے لئے وہ یہاں آۓ ہوں ویسے بھی ایک معمولی پرندے کیلئے عربوں کے اربوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور یہ شکار پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہی کیوں کیا جاتا ہے تلور تو ایک آزاد پرندہ ہے سال میں دو دفعہ اپنا سفر ٹھنڈے ممالک سے گرم ممالک اور پھر گرم سے ٹھنڈے ممالک کی طرف کرتے ہیں اس سفر کے دوران دنیا کے بیسوں ممالک سے گزرتے ہیں جن میں عرب ممالک بھی شامل ہیں پاکستان میں مقامی لوگ بھی اس کا شکار کرتے ہیں مجھے خود ایک دفعہ بہاولپور کے ایک دوست کے ساتھ شکار کا اتفاق ہوا تھا اور تلور کھانے موقعہ بھی ملا ذائقہ میں گوجرانوالہ سے ملنے والے چڑوں سے زیادہ کمال نہیں تھا اور مجھے ذاتی طور پر اس میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی کہ اس کے شکار کے لئے اتنی محنت یا سرمایا خرچ کیا جائے پھر بھی عرب شہزادے اس شکار کے اتنے شوقین کیوں ہوتے ہیں اور یہاں آکر ہی کیوں حالانکہ ان کو شکار زندہ ی مردہ ان کے ممالک میں بصد خوشی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اندر کی کہانی اس شکار سے بھی زیادہ ہولناک اور بربریت سے بھری ہے پچھلے دنوں میری ملاقات بہاولپور میں عرب شہزادوں کی سکیورٹی پر معمور ایک سکیورٹی آفسر سےہوئی جو ایک ریٹائر میجر تھے اور اسلام آباد میں کوئی نئی جاب تلاش کر رہے تھے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں وہ دو لاکھ کی تنخواہ لیتے تھے میں سوال کیا جاب کیوں چھوڑی ؟ میجر صاحب نے جواب دیا فوجی ہوں ضمیر گوارہ نہیں کیا میرے لئے جواب حیرت انگیز تھا لیکن جو کچھ ان سے سنا پیش خدمت ہے ۔ سکیورٹی آفیسر کی ذمہ داری ہوتی ہے مہمان کو ائیرپورٹ سے لے اور ہر لمحہ اس کے ساتھ رہے اور اسے واپس ائیرپورٹ پر بحفاظت پہنچائے اور مہمان ہر وقت اس کی نظر میں رہے لہذا اس سے زیادہ کسی مہمان کی ذاتی مصروفیات کو کوئی نہیں جانتا ہم سب نے کبھی غور کیا ہے کہ عرب شہزادے جب بھی شکار پر آتے ہیں اکیلے کیوں آتے ہیں ان کے ساتھ ان کی فیملی یا بیویاں کیوں نہیں آتی کیا ان کو تلور اور ہرن کا گوشت پسند نہیں کہانی کچھ یوں ہے شہزادے جب شکار گاہ میں آتے ہیں تو محل سے دور خیمہ بستی قائم کی جاتی ہے جہاں یہ دوپہر کے بعد شکار شروع کرتے ہیں شکار میں شکرے گھوڑے کتے اور باز استعمال ہوتے ہیں شکار مغرب سے پہلے ختم ہو جاتا ہے پھر مغرب کی نماز کی با جماعت ادائیگی ہوتی ہے اور شکار پکایا جاتا ہے باربی کیو 'ہنڈی کڑھای 'سٹیم روسٹ کے ساتھ ساتھ ہزاروں طرح کے میٹھے اور ہریسہ اور پھر عشاء کی با جماعت نماز سے پہلے اسے کھا لیا جاتا ہے پھر شہزادے اپنے اپنے خیموں کا رخ کرتے ہیں جہاں حکومت پاکستان 'مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی حوس پوری کرنے کیلئے کم عمر مقامی لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہےاس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لڑکیاں مقامی یعنی پاکستانی ہوں کسی کی عمر بارہ یا چودہ سال سے زیادہ نہ ہوں شہزادوں کو پیش کرنے سے پہلے ان پاکستانی بیٹیوں کو مشک و عنبرسے نہلادھلا کر خاص ٹریننگ دی جاتی ہے کہ شہزادوں کو کسی طرح کی مزاحمت یا پریشانی کا سامنا نہ ہو اندر کے حالات تو کوئی نہیں جانتا کہ ان بچیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن وہی ہوتا ہوگا جو ایک باز ایک ننھی سی چڑیا کے ساتھ کرتاہے میجر صاحب نے کہا میں خیموں کے باہر وہ آوازیں سنی تھیں جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں اس تجربے کو بتاتے ہوئے ایک فوجی کی آنکھوں میں آنسو تھے خود سوچ لیں جہاں ایک فوجی کی ہمت جواب دے گئی وہاں ظلم کس نہج پر ہوگا بربریت کیسے محو رقصاں ہو گئی شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹر بھی اس بات کے گواہ ہیں جب ایمرجنسی میں یہ کم سن پاکستانی بیٹیاں گہرے اندرونی زخموں کی وجہ سے کئی کئی دن ہسپتال میں گزارتی ہیں اور کئ تو اپنی جان سے جاتی ہیں ۔ میرا پوری قوم سے سوال ہے کیا ہم دلال ہیں یا یہ ملک ہیرا منڈی ہے چند سکوں اور ویزوں کی مرعات کے بدلے ہم اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں کس کام کا ہمارا ایٹم بم کس کام کی آزادی جو ہزاروں جانیں دے کر ملی تھی کہاں جاتی ہے غیرت قومی جب یہ شہزادے آپس میں بیٹھ کر پاکستانی قوم کی عزت اور توقیر کی دھجیاں اڑاتے ہوں گئے ہم جن ممالک کے شہزادوں کے سامنے کمر تک جھک کا کورنش بجا لاتے ہیں ان کا پورا ملک پاکستان کے ایک شہر سے بھی چھوٹا ہوگا اور کمزور اس قدر کے اگر ایک بریگیڈ فوج بھیج دی جائے تو جنگ لڑے بغیر ہیتھار ڈال دیں گئے لیکن میرے خیال میں قصور ان شہزادوں کا نہیں قصور ہمارا ہے کیونکہ جب آپ قومی عزت و غیرت کو تھال میں رکھ کر سر بازار کھڑے ہوں گئے تو خریدار تو کوئی بھی ہو سکتا ہے ویسے اتنی بےعزتی اور بے توقیری کے بعد ہمیں یہ اٹیم بم اپنے دالحکومت میں رکھ کر چلا لینا چائے شاید یہاں کوئی بھی قوم دوبارہ آباد ہو وہ ہماری طرح اس زمین پر بوجھ نہ ہو
بلوچستان پاکستان کے واحد صوبہ ہے جہاں پاکستان کی بنیادیں مضبوط کی گئ ہیں لیکن ستر سال گزرنے کے باوجود بلوچوں کو کسی نے پاکستانی تصور نہیں کیا پسماندگی کے ساتھ ساتھ ظلم کا بازار بھی تھم نہ سکا
Sunday, May 5, 2019
پاکستان میں عرب کے آئے شہزادے پاپندی کے باوجود تلور کی شکار کرتے ہیں کون ہے وہ طاقت جس کے ساتھ ملکر پاکستان کے قانون کو لالچ یاڈر سے دھجیاں اڑائ جاتی ہیں
یہ تلور کا شکار اتنا خاص کیوں ہے؟اور یہ شکار صرف عرب شہزادے ہی کیوں کرتےہیں گورے بھی شکار کے بہت شوقین ہوتے ہیں لیکن کبھی سنا نہیں کہ شکار کے لئے وہ یہاں آۓ ہوں ویسے بھی ایک معمولی پرندے کیلئے عربوں کے اربوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور یہ شکار پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہی کیوں کیا جاتا ہے تلور تو ایک آزاد پرندہ ہے سال میں دو دفعہ اپنا سفر ٹھنڈے ممالک سے گرم ممالک اور پھر گرم سے ٹھنڈے ممالک کی طرف کرتے ہیں اس سفر کے دوران دنیا کے بیسوں ممالک سے گزرتے ہیں جن میں عرب ممالک بھی شامل ہیں پاکستان میں مقامی لوگ بھی اس کا شکار کرتے ہیں مجھے خود ایک دفعہ بہاولپور کے ایک دوست کے ساتھ شکار کا اتفاق ہوا تھا اور تلور کھانے موقعہ بھی ملا ذائقہ میں گوجرانوالہ سے ملنے والے چڑوں سے زیادہ کمال نہیں تھا اور مجھے ذاتی طور پر اس میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی کہ اس کے شکار کے لئے اتنی محنت یا سرمایا خرچ کیا جائے پھر بھی عرب شہزادے اس شکار کے اتنے شوقین کیوں ہوتے ہیں اور یہاں آکر ہی کیوں حالانکہ ان کو شکار زندہ ی مردہ ان کے ممالک میں بصد خوشی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اندر کی کہانی اس شکار سے بھی زیادہ ہولناک اور بربریت سے بھری ہے پچھلے دنوں میری ملاقات بہاولپور میں عرب شہزادوں کی سکیورٹی پر معمور ایک سکیورٹی آفسر سےہوئی جو ایک ریٹائر میجر تھے اور اسلام آباد میں کوئی نئی جاب تلاش کر رہے تھے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ وہاں وہ دو لاکھ کی تنخواہ لیتے تھے میں سوال کیا جاب کیوں چھوڑی ؟ میجر صاحب نے جواب دیا فوجی ہوں ضمیر گوارہ نہیں کیا میرے لئے جواب حیرت انگیز تھا لیکن جو کچھ ان سے سنا پیش خدمت ہے ۔ سکیورٹی آفیسر کی ذمہ داری ہوتی ہے مہمان کو ائیرپورٹ سے لے اور ہر لمحہ اس کے ساتھ رہے اور اسے واپس ائیرپورٹ پر بحفاظت پہنچائے اور مہمان ہر وقت اس کی نظر میں رہے لہذا اس سے زیادہ کسی مہمان کی ذاتی مصروفیات کو کوئی نہیں جانتا ہم سب نے کبھی غور کیا ہے کہ عرب شہزادے جب بھی شکار پر آتے ہیں اکیلے کیوں آتے ہیں ان کے ساتھ ان کی فیملی یا بیویاں کیوں نہیں آتی کیا ان کو تلور اور ہرن کا گوشت پسند نہیں کہانی کچھ یوں ہے شہزادے جب شکار گاہ میں آتے ہیں تو محل سے دور خیمہ بستی قائم کی جاتی ہے جہاں یہ دوپہر کے بعد شکار شروع کرتے ہیں شکار میں شکرے گھوڑے کتے اور باز استعمال ہوتے ہیں شکار مغرب سے پہلے ختم ہو جاتا ہے پھر مغرب کی نماز کی با جماعت ادائیگی ہوتی ہے اور شکار پکایا جاتا ہے باربی کیو 'ہنڈی کڑھای 'سٹیم روسٹ کے ساتھ ساتھ ہزاروں طرح کے میٹھے اور ہریسہ اور پھر عشاء کی با جماعت نماز سے پہلے اسے کھا لیا جاتا ہے پھر شہزادے اپنے اپنے خیموں کا رخ کرتے ہیں جہاں حکومت پاکستان 'مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی حوس پوری کرنے کیلئے کم عمر مقامی لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہےاس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لڑکیاں مقامی یعنی پاکستانی ہوں کسی کی عمر بارہ یا چودہ سال سے زیادہ نہ ہوں شہزادوں کو پیش کرنے سے پہلے ان پاکستانی بیٹیوں کو مشک و عنبرسے نہلادھلا کر خاص ٹریننگ دی جاتی ہے کہ شہزادوں کو کسی طرح کی مزاحمت یا پریشانی کا سامنا نہ ہو اندر کے حالات تو کوئی نہیں جانتا کہ ان بچیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن وہی ہوتا ہوگا جو ایک باز ایک ننھی سی چڑیا کے ساتھ کرتاہے میجر صاحب نے کہا میں خیموں کے باہر وہ آوازیں سنی تھیں جو کسی عقوبت خانے سے آتی ہیں اس تجربے کو بتاتے ہوئے ایک فوجی کی آنکھوں میں آنسو تھے خود سوچ لیں جہاں ایک فوجی کی ہمت جواب دے گئی وہاں ظلم کس نہج پر ہوگا بربریت کیسے محو رقصاں ہو گئی شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹر بھی اس بات کے گواہ ہیں جب ایمرجنسی میں یہ کم سن پاکستانی بیٹیاں گہرے اندرونی زخموں کی وجہ سے کئی کئی دن ہسپتال میں گزارتی ہیں اور کئ تو اپنی جان سے جاتی ہیں ۔ میرا پوری قوم سے سوال ہے کیا ہم دلال ہیں یا یہ ملک ہیرا منڈی ہے چند سکوں اور ویزوں کی مرعات کے بدلے ہم اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں کس کام کا ہمارا ایٹم بم کس کام کی آزادی جو ہزاروں جانیں دے کر ملی تھی کہاں جاتی ہے غیرت قومی جب یہ شہزادے آپس میں بیٹھ کر پاکستانی قوم کی عزت اور توقیر کی دھجیاں اڑاتے ہوں گئے ہم جن ممالک کے شہزادوں کے سامنے کمر تک جھک کا کورنش بجا لاتے ہیں ان کا پورا ملک پاکستان کے ایک شہر سے بھی چھوٹا ہوگا اور کمزور اس قدر کے اگر ایک بریگیڈ فوج بھیج دی جائے تو جنگ لڑے بغیر ہیتھار ڈال دیں گئے لیکن میرے خیال میں قصور ان شہزادوں کا نہیں قصور ہمارا ہے کیونکہ جب آپ قومی عزت و غیرت کو تھال میں رکھ کر سر بازار کھڑے ہوں گئے تو خریدار تو کوئی بھی ہو سکتا ہے ویسے اتنی بےعزتی اور بے توقیری کے بعد ہمیں یہ اٹیم بم اپنے دالحکومت میں رکھ کر چلا لینا چائے شاید یہاں کوئی بھی قوم دوبارہ آباد ہو وہ ہماری طرح اس زمین پر بوجھ نہ ہو
Sunday, April 7, 2019
کلاچی بلوچستان سے بلوچ مریض کو روڈ نہ ہونے کے باعث لکڑیوں پر اٹھا کر سڑک کی طرف لے جائے جارہا ہے پاکستان میں جب تک سردار وڈیرے چوہدری خان کے اجاراداری رہی تب تک پاکستان کی ترقی ممکن نہیں نہ پاکستان کو دشمن کی ضروت ہے
اس پورے علاقے میں جو کم از کم ایک سو اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے اس پورے علاقے میں نہ ایک کلومیٹر روڈ ہے نہ بجلی اور نہ ہی اسپتال اور یہاں سے ایم پی اے بھی بی این پی کا ہے اور ایم این اے بھی بی این پی کا ہے ان سات ماہ میں اس علاقے کی درج بالا بنیادوں سہولتوں کیلیئے ایک بھی آواز نہیں اٹھی۔ان موٹرویز سے گزرتے ہوئے جب یہ لوگ آیک آدمی کے پاس پہنچینگے جسے لوگ تو ڈاکثر کہتے ہیں مگر اسے بھیڑیا کہنا ٹھیک رہیگا۔
ان لوگوں کی دادرسی نہ پہلی حکومتوں کے ادوار میں ہوئی نہ اب ہوگی۔
ہم بلوچستان کے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ تو مرکز کے چہیتے ہیں اپ انے دؤر میں ان علاقوں کو روڈ اسپتال اور بجلی کی سہولتوں سے آراستہ کرکے انکی دعائیں لیں۔
عبدالفتاح بروہی
Thursday, March 28, 2019
بارکھان میں کھیتران قبائل کا مری قبائل کے چار افراد گن پوائٹ پر اغوا چوبیس گھنٹے گزرنے مغوی بازیاب نہ ہو سکے
OC
بارکھان بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کھیتران قبیلے کی ذیلی شاخ وگہ نے مری قبیلے کے چار افراد کو گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا اغوا ہونے والوں میں ایک مرد دو خواتین اور ایک چار سالہ بچہ شامل ہے۔
Vo
بارکھان 27 مارچ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تقریبا ڈھائی بجے کے قریب کھیتران قبیلے سے تعلق رکھنے والے سات سے آٹھ مسلح افراد نے موضع ڈبلہ علاقہ سوئمن کے قریب چار افراد کو گن پوائنٹ پر اغوا کر لیا جن ایک مرد دو خواتین ایک چار سالہ بچہ شامل ہے پولیس کے مطابق اغوا کی وجہ ایک ماہ قبل کھیتران قبیلے کی ایک لڑکی نے مری قبیلے کے ایک شخص سے پسند کی شادی کی تھی جس کی پاداش میں گزشتہ رات کھیتران قبیلے کے لوگوں نے چار افراد کو اٹھا لیا ہے پولیس کے مطابق ایک شخص امیر حمزہ کو بازیاب کرالیا گیا ہے اور اب بھی دیگر مغویوں کی بازیابی کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے گھر پر اب سے کچھ دیر قبل چھاپہ مارا گیا ہے لیکن ملزمان گھر پر موجود نہیں ہیں پولیس ملزمان کو موبائل فون پر ٹریس کرنے کی کوشش کررہی ہے ایس ایچ او رکنی پولیس اسٹیشن رحیم بخش بزدار